روشن ہیں دل کے داغ،نہ آنکھوں کے شب چراغ
کیوں شام ہی سے بُجھ گئے محفل کے سب چراغ
وہ دن نہیں ‘ کرن سے کرن میں لگے جو آگ
وہ شب کہاں ‘ چراغ سے جلتے تھے جب چراغ
تِیرہ ہے خاکداں ‘ تو فلک بے نجوم ہے
لائے کہاں سے مانگ کے دستِ طلب چراغ
روشن ضمیر آج بھی ظلمت نصیب ہیں
تم نے دیے ہیں پوچھ کے نام و نسب چراغ
وہ تیرگی ہے دشتِ وفا میں کہ اَلامَاں !
چمکے جو موجِ ریگ تو پائے لقب چراغ
دن ہو اگر‘ تو رات سے تعبیر کیوں کریں
سورج کو اہلِ ہوش دکھاتے ہیں کب چراغ
اے بادِ تُند! وضع کے پابند ہم بھی ہیں
پتھر کی اوٹ لے کے جلائیں گے اب چراغ
شکیب جلالی