اپنی ذہنی کشمکش کو اب نمایاں کیجیے
کیجیے خم کار زلفوں کو پریشان کیجیے
اس طرح شاید نکھر جائے یہ پھیکی چاندنی
اپنی زُلفوں کے گھنے سایے پریشان کیجیے
روکیے بڑھتی ہوئی تاریکیوں کو روکیے
کیجیے اپنے رخِ تاباں کو عریاں کیجیے
جو کہ ہمت ہار جائیں ، آ کے ساحل کے قریب
ایسی نازک کشتیوں کو نذرِ طوفاں کیجیے
رنج کا احساس دل سے مٹ نہیں سکتا کبھی
آپ کتنا بھی تبسم کو نمایاں کیجیے
کچھ نہ کچھ تو آپ کو مجھ سے تعلق ہے ضرور
مجھ کو رسوا کر کے یوں خود کو نہ عریاں کیجیے
پھر بھی ان کی یاد آتی ہی رہے گی، اے شکیبؔ
جس قدر بھی ہو خیالوں کو پریشاں کیجیے
شکیب جلالی