ادھر ہے ضبط، ادھر اک خیال ہے تُو ہے
کہ تیری یاد میں تیرا وصال ہے تُو ہے
مُحال فطرتِ انسان کو ہے پابندی
کہ قیدِ جسمِ شکستہ سا جال ہے تُو ہے
ضیاے ماہ و کواکب ہے جس سے شرمندہ
مرا ہلال بہ اوجِ کمال ہے تُو ہے
ترا جواب کہاں فتنہِ قیامت میں
ستم ستم ہے، کرم اک مثال ہے تُو ہے
شکیبؔ، رات کے تاروں کی مسکراہٹ میں
ترا جلال ہے، تیرا جمال ہے، تُو ہے
شکیب جلالی