دل کے ویرانے میں اک پھول کھلا رہتا ہے
کوئی موسم ہو مرا، زخم ہرا رہتا ہے
شب کو ہو گا اُفقِ جاں سے ترا حُسن طلوع
یہ وہ خورشید ہے جو دن کو چھپا رہتا ہے
یہی دیوارِ جدائی ہے زمانے والو
ہر گھڑی کوئی مقابل میں کھڑا رہتا ہے
کتنا چپ چاپ ہی گزرے کوئی میرے دل سے
مدّتوں ثبت نشانِ کفِ پا رہتا ہے
سارے در بند ہوئے شہر میں دیوانے پر
ایک خوابوں کا دریچہ ہی کُھلا رہتا ہے
شکیب جلالی