دھوپ کہیں ہے چھاؤں کہیں ہے
کوئی بھی لذّت عام نہیں ہے
یوں بیٹھے ہیں تھکے مسافر
جیسے منزل یہیں کہیں ہے
گردشِ دوراں توبہ توبہ
ہم کو خدا بھی یاد نہیں ہے
جس کو چاہا حُسن میں ڈھالا
تجھ سے میری آنکھ حَسیں ہے
ان کی کوئی بات سناؤ
جن کا مجھ سے میل نہیں ہے
دوست ہیں دل میں، ذہن میں دشمن
کوئی بھی مجھ سے دُور نہیں ہے
شکیب جلالی