حسین اقدس رضوی ایک شائستہ اور مہذّب آدمی ہیں۔ تہذیبی رچاؤ ان کی گفتگو میں چھلکتا ہے۔ اور نشست و بر خاست میں گُزرے زمانوں کا رنگ جھلکتا ہے ‘ اگر چہ وہ عمر کی اس منزل پرہیں ‘ جو زندگی میں نئی رنگ آمیزیوں کا شوق بیدار کرتا ہے۔ وہ ایک بینکار ہیں ‘ اور ان کا بیش تر وقت اعدادو شمار کی اُلجھنوں کو سلجھانے میں گزرتا ہے ‘ لیکن اس کے باوجود غضب کا شعری ذوق رکھتے ہیں۔ خود شعر نہیں کہتے ‘ لیکن شعر کی باریکیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ مزاج میں ٹھہراؤ اور مستقل مزاجی نمایاں نظر آتی ہے ‘ شاید اس لیے کہ حوادثِ زمانہ نے زندگی کے اُمورکو سمجھنے اور برتنے کے لیے ان کی ذات کو ایک خاص سلیقے اور قرینے سے ہم کنار کردیا ہے۔
شاید اقدس رضوی کا یہ وصف ایک فطری عمل سے وجود میں آیا ہے ‘ کیوں کہ وہ جدید دور کے نام ور رُجحان ساز شاعر ‘ شکیب جلالی کے فرزندِ ارجمند ہیں ‘ جو ہمیشہ حوا د ثِ زمانہ کی زد میں آندھیوں کے سامنے رکھے ہوئے چراغ کے مانند جلتے بُجھتے رہے ‘ اور اپنے اس تجربے کو نوبہ نو پُر اثر شعروں میں منتقل کرتے رہے۔ یہ اشعار کس قدرپُر اثر اور پُرمایہ ہیں ‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے مجموعے ’روشنی اے روشنی‘ کے متعدّد ایڈیشن منظرِ عام پرآچکے ہیں ‘ اور جب کوئی ایڈیشن بازار میں آتا ہے تو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔
شکیب جلالی کا بہت سا کلام ‘ جو ’روشنی اے روشنی ‘ میں شامل نہیں ہو سکا ‘ ادھر اُدھر کاغذوں میں بکھرا ہواتھا۔ کچھ اوراق ان کی اہلیہ‘ محدثہ خاتون نے سینے سے لگا رکھے تھے‘ اور بعض نظمیں اور غزلیں رسائل اور اخبارات کے صفحات میں نہاں تھیں۔ ایک سعادت مند فرزند ہونے کے ناتے علی اقدس نہ جانے کب سے ان بکھرے ہوئے اوراق کو یک جا کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ یقیناً یہ ایک پیچیدہ اور جان لیوا کام تھا ‘ لیکن وہ مستقل مزاجی سے اس مُہم کو سر کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے اپنی والدہ محترمہ کے پاس محفوظ کلام حاصل کیا‘ اور اس کے بعد کسی سُراغ رساں کی طرح دوسرے امکانات معلوم کرنے کے لیے تگ و دو کرنے لگے۔ انہوں نے پاکستان کے علاوہ انڈیا میں بھی اُن اہلِ ادب سے رابطہ کیا‘ جو کسی نہ کسی پہلو سے ان کی رہنمائی کرسکتے تھے۔ اس مجموعے میں شامل بعض مشاہیر کے مضامین اسی جستجو کا ثمر ہیں۔
حسین اقدس کی آرزوتھی کہ یہ مجموعہِ کلام صُوری اعتبار سے بھی دیدہ زیب اورا غلاط سے پاک ہو۔ اس لیے انہوں نے بڑی دیدہ ریزی سے خود بھی پُروف ریڈنگ کی ‘ اور دوسرے اصحاب سے بھی مدد حاصل کی۔ شکیب جلالی مرحوم عام طور پر اپنا کلام کاپیوں پر لکھا کرتے تھے۔ ان کاپیوں کے بعض او راق بوسیدہ حالت میں ہیں۔ بعض الفاظ مٹے مٹے سے ہیں ‘ اور بعض بالکل پڑھنے میں نہیں آتے۔ بعض مقامات پر شکیبؔ صاحب نے اپنے اشعار پر نظر ثانی کی ہے ‘ بعض مصرعے بالکل تبدیل کردیے ہیں ‘ اور بعض میں جُزوی تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ اُن کا طرزِ تحریر روشن اور صاف ہے ‘ تاہم بعض مقامات پر جہاں الفاظ کاٹ کر نئے الفاظ لکھے گئے ہیں ‘ بین السّطور میں گنجائش نہ ہونے کے باعث وہ پڑھنے میں نہیں آتے اورانھیں سمجھنے کے لیے خاصی دیدہ ریزی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ بہر حال ‘ علی اقدس کی مستقل مزاجی نے یہ تمام مرحلے طے کرلیے۔
حسین اقدس کا اصرار تھا کہ میں بھی ان کے والدماجد کے کلام پر مضمون لکھ کران کے حوالے کروں۔ میں نے کہا کہ اتنے مشاہیر کے مضامین کے بعد مجھ جیسے کو تاہ علم کے مضمون کی ضرورت نہیں۔ تاہم ‘ ان کے اصرار کے پیشِ نظرگُریز کا پہلو اختیار کرتے ہوئے زیرِ نظر سطروں کے لیے راہ نکالنی پڑی۔
جہاں تک شکیبؔ صاحب کی شاعری کا تعلق ہے ‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کی زندگی بھی حیران کُن تھی ‘ اوران کے اشعار بھی ہماری آنکھوں کے سامنے حیرت کے نئے در کھولتے چلے جاتے ہیں۔ ان کا ڈکشن مُنفرد ہے ‘ شاید اسی لیے اُن کے متعدد اشعار ضرب المثل کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔ ان میں حُزن وملال کے ساتھ اضطراب اور بغاوت کا احساس بھی اُمڈتا ‘ گرجتا محسوس ہوتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ مجموعہء کلام ‘ جس میں شکیب جلالی کا ساراکلام سمٹ آیا ہے ‘ اہلِ ادب کے درمیان مقبولیت کی سند حاصل کرے گا‘ اور اس سے ان کے کلام کی معنویت کی دریافت کے نئے امکانات سامنے آئیں گے۔
حسین اقدس اور ان کی والدہ ماجدہ ‘ محترمہ محدّثہ خاتون مبارک باد کے مستحق ہیں کہ ان کی لگن اور محنت کے طفیل یہ قابلِ قدر کتاب نہ صرف ان کے بلکہ ہمارے ہاتھوں میں بھی ہے۔