کس درجہ سست گام ہیں پھولوں کے قافلے

بعد از خزاں بھی خشک بگولوں کے سلسلے
کس درجہ سست گام ہیں پھولوں کے قافلے
کیوں کر بڑھائیں ربط کسی اجنبی کے ساتھ
ساتھی تھے عمر بھر کے جو غیروں سے جا ملے
جو کائناتِ درد سے مانوس ہی نہیں
وہ کر رہے ہیں پیار کی دنیا کے فیصلے
اے پیکرِ غرور کہ ہم بھی ہیں بااصول
طے ہوسکیں گے کیا یہ پُراَسرار فاصلے
ایثار کے دیار سے نفرت کے شہر تک
ہیں کس قدر طویل محبت کے سلسلے
افسانہِ بہار پھر ان کی زبان سے
خوشبو اُڑی، نسیم چلی، پھول سے کھلے
گہنا گئے بوقتِ سَحر دل کے وَلولے
کیا کچھ نہ حال ہو گا اُمنگوں کا، دن ڈھلے
تیری شبیہ کا ہے خلاؤں میں رقص پھر
محرابِ زندگی میں ہزاروں دیے جلے
اُس کو یقین کیا دلِ اخلاص کِیش کا
مایوسیوں کی گود میں جو زندگی پَلے
آساں بنا رہا تھا جنھیں احتیاط سے
دشوار ہو گئے وہی نازک سے مرحلے
آئے تھے وہ وفا کی نمایش کے واسطے
میرے تعلّقات کو آلودہ کر چلے
مسمار ہو سکے نہ گھروندے وفاؤں کے
آتے رہے پیار کی بستی میں زلزلے
شعلوں کے رنگ میں، کہیں شبنم کے روپ میں
منظوم ہیں، شکیبؔ، مرے دل کے وَلولے
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s