اتر گیا تنِ نازک سے پتّیوں کا لباس
کسی کے ہاتھ نہ آئی مگر گلاب کی باس
اب اپنے جسم کے سائے میں تھک کے بیٹھ رہو
کہیں درخت نہیں راستے میں ‘ دُور نہ پاس
ہزار رنگ کی ظلمت میں لے گئی مجھ کو
بس اک چراغ کی خواہش‘ بس اک شرار کی آس
تمھارے کام نہ آئے گا جو بھی دانا ہے
ہر ایک شخص پہ کیوں کر رہے ہو اپنا قیاس
کسی کی آس تو ٹوٹی‘ کوئی تو ہار گیا
کہ نیم باز دریچوں میں روشنی ہے اُداس
وہ کالے کوس کی دوری اب ایک خواب سی ہے
تم آگئے ہو‘ مگر کب نہ تھے ہمارے پاس
یہ کیا طلسم ہے‘ جب سے کنارِ دریا ہوں
شکیبؔ‘ اور بھی کچھ بڑھ گئی ہے رُوح کی پیاس
شکیب جلالی