چشمِ مے گوں تری یاد آئی ہے

جب بھی گُلشن پہ گھٹا چھائی ہے
چشمِ مے گوں تری یاد آئی ہے
کس کے جلووں کو نظر میں لاؤں
حسن خود میرا تماشائی ہے
آپ کا ذکر نہیں تھا لیکن
بات پر بات نکل آئی ہے
زندگی بخش عزائم کی قسم
ناؤ ساحل کو بہا لائی ہے
مرگ و ہستی کا مٹا کر احساس
زندگی موت سے ٹکرائی ہے
مجھ کو دنیا کی محبت پہ، شکیبؔ
اکثر اوقات ہنسی آئی ہے
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s