چراغ بن کے تری رہ گزر میں جلتے ہیں

جو اشکِ خوں مری پلکوں سے بہ نکلتے ہیں
چراغ بن کے تری رہ گزر میں جلتے ہیں
شبِ بہار میں مہتاب کے حَسیں سایے
اداس پآ کے مجھے، اور بھی مچلتے ہیں
اسیرِ دامِ جنوں ہوں، مجھے رہائی کہاں
یہ رنگ و بُو کے قفس میرے ساتھ چلتے ہیں
وہ شمعِ رُو کا شبستاں، یہ بزمِ ہجراں ہے
’’وہاں چراغ، یہاں دل کے داغ جلتے ہیں،،
پرائی آگ سے شاید گداز ہو جائیں
خود اپنی آگ سے کب سنگ دل پگھلتے ہیں
یہ دل، وہ کارگہِ مرگ و زیست ہے کہ جہاں
ستارے ڈوبتے ہیں، آفتاب ڈھلتے ہیں
شکیبؔ! حُسنِ سماعت ہے آپ کا ورنہ
دلِ شکستہ سے نغمے کہاں اُبلتے ہیں
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s