مرے خلوص کی شدّت سے کوئی ڈر بھی گیا
وہ پاس آ تو رہا تھا مگر ٹھہر بھی گیا
یہ دیکھنا تھا: بچانے بھی کوئی آتا ہے!
اگر میں ڈوب رہا تھا تو خود اُبھر بھی گیا
اے راستے کے درختو! سمیٹ لو سایہ
تمھارے جال سے بچ کر کوئی گزر بھی گیا
کسی طرح سے تمھاری جبیں چمک تو گئی
یہ اور بات سیاہی میں ہاتھ بھر بھی گیا
اِسی پہاڑ نے پُھونکے تھے کیا کئی جنگل
جو خاک ہوکے مرے ہاتھ پر بکھر بھی گیا
یہیں کہیں مرے ہونٹوں کے پاس پھرتا ہے
وہ ایک لفظ کہ جو ذہن سے اتر بھی گیا
وہ شاخ جُھول گئی جس پہ پاؤں قائم تھے
شکیبؔ ورنہ مرا ہاتھ تا ثمر بھی گیا
شکیب جلالی