تم ان کی محفلوں میں کبھی جاؤ بھی نہیں
وہ لوگ جن کے سینے میں اک گھاؤ بھی نہیں
بارانِ برگِ گُل کہاں اپنے نصیب میں
اب رَہ روانِ شوق پہ پتھراؤ بھی نہیں
یہ کالی رات، گہرا سمندر، ہوا کا زور
اور میرے پاس ٹوٹی ہوئی ناؤ بھی نہیں
تم آدمی ہو، کوئی فرشتہ نہیں ، شکیبؔ!
اس درجہ جرمِ عشق پہ شرماؤ بھی نہیں
شکیب جلالی