نئی کرن

جہاں پناہ سسکنے لگی چراغ کی لو
شعاعِ تازہ سے چھلنی ہے سینۂ ظلمات
بلند بام ہراسان ہیں رہ نشینوں سے
اک ایسے موڑ پہ آئی ہے گردشِ حالات
جسے بھی دیکھیے لب پر سجائے پھرتا ہے
نرالے دور کا قصہ، اچھوتے دور کی بات
جنہیں تھا حکمِ خموشی وہی پکار اٹھے
ہمیں بھی اذنِ تبسم ہمیں بھی اذنِ حیات
طلب ہوئی ہے جنہیں بے کراں اجالوں کی
سرابِ نجم و قمر سے بہل نہیں سکتے
نئی کرن سے اندھیروں میں برہمی ہی سہی
نئی کرن کو اندھیرے نگل نہیں سکتے
جہاں پناہ جمال سحر کی جوئے رواں
افق افق کو درخشاں بنا کے دم لے گی
پلک پلک سے مٹائے گی داغ اشکوں کے
نظر نظر کو تبسم سکھا کے دم لے گی
خزاں رسیدہ چمن ہوں کہ ریت کے ٹیلے
قدم قدم پہ شگوفے کھِلا کے دم لے گی
ازل سے سینۂ ویراں ہے منتظر جس کا
نفس نفس وہی خوسشبو رچا کے دم لے گی
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s