میرا ہر فقرہ مکمل داستاں ہو جائے گا

رازِ دل پابندیوں میں بھی بیاں ہو جائے گا
میرا ہر فقرہ مکمل داستاں ہو جائے گا
دھیرے دھیرے اجنبیت ختم ہو ہی جائے گی
رہتے رہتے یہ قفس بھی آشیاں ہو جائے گا
ہم نے حاصل کرنا چاہا تھا خلوصِ جاوداں
کیا خبر تھی کوئی ہم سے بدگماں ہو جائے گا
فطرتِ انساں میں ہونا چاہیے ذوقِ عمل
خاک کے ہر ذرّے سے پیدا جہاں ہو جائے گا
کر دیا تبدیل ہم نے اپنا اندازِ سفر
اب تو رہزن بھی شریکِ کارواں ہو جائے گا
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s