مُطربہ چھیڑ دے خوشی کے گیت

لے اُڑی ہے صَبا کلی کے گیت
مُطربہ چھیڑ دے خوشی کے گیت
ہم سے پہلے کہاں تھا سوز و گداز
ساز بے سُر تھے اور پھیکے گیت
نیند میں زہر گھول دیتے ہیں
رات کو ایک اجنبی کے گیت
موج رہ رہ کے سر کو دُھنتی ہے
کتنے سندر ہیں جل پری کے گیت
تم تو سرگوشیوں میں کھوئے رہے
کب سُنے تم نے خامُشی کے گیت
موت کے سامنے بھی لہرا کر
ہم نے گائے ہیں زندگی کے گیت
جس کا دُکھ درد تم نہ بانٹ سکے
بُھول بھی جاؤ اُس کوی کے گیت
گونجتے ہیں، شکیبؔ، خوابوں میں
آنے والی کسی صدی کے گیت
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s