مری توبہ کی خیر برسات آئی

نظر پھر حضورِ خرابات آئی
مری توبہ کی خیر برسات آئی
اُدھر ان کے لب پر مری بات آئی
اِدھر رقص میں روحِ نغمات آئی
وہ جب سے گئے ہیں خدا جانتا ہے
نہ وہ چاند نکلا، نہ وہ رات آئی
کبھی صبحِ خنداں نے آنسو بہائے
کبھی مُسکراتی ہوئی رات آئی
ہر اک گام پر جُرأتیں کہہ رہی ہیں
یہ منزل بطورِ نشانات آئی
صراحی اٹھائی نہ ساغر سنبھالے
عجب شان سے اپنی برسات آئی
وہ خود راز داں بن کے آئے تھے لیکن
زباں تک نہ دل کی کوئی بات آئی
مجھے ان کے وعدے پہ بالکل یقیں تھا
مگر جب ستاروں بھری رات آئی
نہ کہتا، شکیبؔ، ان سے حالِ غمِ دل
مگر کیا کروں بات پَر بات آئی
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s