میں بھٹکا ہوا اِک مسافر
رہ و رسمِ منزل سے نا آشنائی پہ نازاں
تعاقب میں اپنی ہی پرچھائیوں کے رواں تھا
مرے جسم کا بوجھ دھرتی سنبھالے ہوئے تھی
مگر اس کی رعنائیوں سے مجھے کوئی دل بستگی ہی نہیں تھی
کبھی راہ چلتے ہوئے خاک کی رُوح پرور کشش
میں نے محسوس کی ہی نہیں تھی
میں آنکھوں سے بینا تھا لیکن
مرے چار سُو چادریں آئنوں کی طرح تھیں
کہ جن کے لیے میرا پر تو ہی تھا ایک زندہ حقیقت
کسی دوسرے کو گوارانہ تھی اس میں شرکت
میں کانوں سے بہرہ نہیں تھا
مگر جس طرح کہنہ گنبد میں چمگادڑوں کے بھٹکنے کی آواز گونجتی نہیں ہے
کھلے آسماں کے پرندوں کی چہکار اندر پہنچتی نہیں ہے
اسی طرح میرا بھی ذوقِ سماعت رسا تھا فقط اپنی ہی دھڑکنوں تک
بس اپنے لہو کی سُبک آہٹوں تک
میں بھٹکا ہوا اک مسافر
مری راہ پرمٹ چکے تھے سفر کے اشارات سارے
فراموشیوں کی گھنی دھند میں کھو چکے تھے جہت کے نشانات سارے
رہ و رسمِ منزل سے میں آشنا ہی نہیں تھا
کروڑوں مرے ہم سفر تھے
مگرمیں اکیلا
کروڑوں کی اس بھیڑمیں بھی اداس اور اکیلا
تعاقب میں اپنی ہی پرچھائیوں کے رواں تھا
میں شاید ہمیشہ یونہی اپنی پرچھائیوں کے تعاقب میں حیران پھرتا
اگر روشنی مجھ پہ چمکی نہ ہوتی
مبارک وہ ساعت کہ جب موت اور تیرگی کے گھنے سائباں کے تلے
روشنی مجھ پہ چمکی
مرے دل پہ دھرتی نے اور اس کے ارفع مظاہر نے اپنی محبت رقم کی
مبارک وہ ساعت کہ جب برق کے کوڑے لہراتی
لوہے کی چیلوں سے اور
آتشیں تیر برساتے فولاد کے پَر درندوں سے مُڈھ بھیڑ میں
میں نے دیکھے
مرے ساتھیوں کے جگر میں ترازو ہیں جوتیر
ہُوا ہوں میں خود ان کا نخچیر
جو قطرہ لہو کا گرا ان کے تن سے
بہا ہے وہ میرے بدن سے
مبارک وہ ساعت کہ جب میں نے جانا
مری دھڑکنوں میں کروڑوں دلوں کی صدا ہے
مری روح میں مشترک’’گرچہ قالب جداہے‘ ‘