قربِ منزل کے لیے مر جانا

چوٹ ہر گام پہ کھا کر جانا
قربِ منزل کے لیے مر جانا
ہم بھی کیا سادہ نظر رکھتے تھے
سنگ ریزوں کو جواہر جانا
مشعلِ درد جو روشن دیکھی
خانہِ دل کو منّور جانا
رشتہِ غم کو رگِ جاں سمجھے
زخمِ خنداں کو گُلِ تر جانا
یہ بھی ہے کارِ نسیمِ سحری
پتّی پتّی کو جُدا کر جانا
اپنے حق میں وہی تلوار بنا
جسے اک پھول سا پیکر جانا
دشمنوں پر کبھی تکیہ کرنا
اپنے سائے سے کبھی ڈر جانا
کاسہِ سرکو نہ دی زخم کی بھیک
ہم کو مجنوں سے بھی کم تر جانا
اس لیے اور بھی خاموش تھے ہم
اہلِ محفل نے سخن ور جانا
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s