چوٹ ہر گام پہ کھا کر جانا
قربِ منزل کے لیے مر جانا
ہم بھی کیا سادہ نظر رکھتے تھے
سنگ ریزوں کو جواہر جانا
مشعلِ درد جو روشن دیکھی
خانہِ دل کو منّور جانا
رشتہِ غم کو رگِ جاں سمجھے
زخمِ خنداں کو گُلِ تر جانا
یہ بھی ہے کارِ نسیمِ سحری
پتّی پتّی کو جُدا کر جانا
اپنے حق میں وہی تلوار بنا
جسے اک پھول سا پیکر جانا
دشمنوں پر کبھی تکیہ کرنا
اپنے سائے سے کبھی ڈر جانا
کاسہِ سرکو نہ دی زخم کی بھیک
ہم کو مجنوں سے بھی کم تر جانا
اس لیے اور بھی خاموش تھے ہم
اہلِ محفل نے سخن ور جانا
شکیب جلالی