چار سُو آگ تھی نفرت کی لگائی ہوئی آگ
ہاں وہ آتش کدہِ‘ غیر سے لائی ہوئی آگ
جس نے کعبوں کو‘ کنشتوں کو بَھسَم کر ڈالا
جسم اور رُوح کے رشتوں کو بَھسَم کر ڈالا
میں نے اس آگ کو گُل زار بنانے کے لیے
دامنِ گُل کو شراروں سے بچانے کے لیے
دیدہِ شوق میں اشکوں کے سمندر پالے
قلبِ نادار میں داغوں کے نگینے ڈھالے
نہ ہوئے پر نہ ہوئے سرد جہنم کے شرار
مسکراتے رہے ذہنوں میں دھو ئں کے مینار
درمیانِ دل و جاں آگ کی دیوار رہی
زندگی کس کے لیے برسرِ پیکار رہی؟
شکیب جلالی