آغوش میں ماہ پارے پالے ہم نے
گھر گھر میں نئے دِیپ اُجالے ہم نے
تاریک خرابوں کو نیا نُور دیا
ظُلمات سے آفتاب ڈھالے ہم نے
—–
جب جوش میں خوابیدہ اُمنگ آتی ہے
تیزابیِ خورشید کو شرماتی ہے
بپھری ہوئی نظروں کی تمازت کی قسم
پتّھر کی چٹان موم ہوجاتی ہے
—–
فانُوس کی لَو میں جھلملاتے ہیں کبھی
تاروں کی جبیں کو جگمگاتے ہیں کبھی
آنکھوں میں نُور بن کے رہتے ہیں ہم
سُورج کی کِرن میں مُسکراتے ہیں کبھی
—–
ہر رنج کو ہنس کے ٹال جاتے ہیں ہم
ناکامیوں پر بھی مُسکراتے ہیں ہم
اللہ کی قدرت کے تو قائل ہیں مگر
اپنی تقدیر خود بناتے ہیں ہم
—–
نظروں میں نیا زمانہ ڈَھلتا ہے حُضور
آغوش میں انقلاب پَلتا ہے حُضور
حالات کے سانچے مجھے کیا بدلیں گے
ماحول مِرے جَلو میں چلتا ہے حضور
شکیب جلالی