اس مجموعے کا نام’روشنی اے روشنی‘ خود شکیبؔ مرحوم کا تجویز کردہ ہے۔
شکیبؔ کے انتقال کے چند روز بعد ان کی بیوہ کی طرف سے مجھے کاغذات کا ایک انبار موصول ہوا جو شکیبؔ کے کلام کے تراشوں اور ان کی چند نامکمل بیاضوں پر مشتمل تھا۔ ان کے مطالعے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ شکیبؔ کے ابتدائی کلام کا انتخاب نہایت ضروری ہے۔ ساتھ ہی مجھے یہ خدشہ بھی تھا کہ شکیبؔ کے آخری پانچ چھے برس کے کلام میں سے کوئی غزل یا نظم رہ نہ جائے۔ کیونکہ یہی وہ دور ہے جب شکیبؔ کی شاعرانہ عظمت صورت پذیر ہونے لگی تھی۔ اس کام میں بہت دن صرف ہو گئے۔ اس کے بعد ملکی حالات نے ایسا رخ اختیار کر لیا کہ ماحول تخلیقی ادب کے کسی بھی مجموعے کی اشاعت کے لیے سازگار نہ رہا‘ چنانچہ ’روشنی اے روشنی‘ کی اشاعت ملتوی ہوتی رہی۔ اب بھی اشاعتی اور طباعتی صورتِ حال کچھ ایسی ہمت افزا نہیں ہے مگر شکیبؔ کے مجموعہ کلام کی اشاعت میں مزید تاخیر ناقابلِ برداشت تھی اس لیے یہ مجموعہ شائع کیا جا رہا ہے۔ اس کے جملہ حقوقِ اشاعت و اخذ و ترجمہ شکیبؔ کی بیوہ محترمہ محدّثہ خاتون کے حق میں محفوظ ہیں۔
قارئین سے استدعا ہے کہ اگر اس کے مطالعے کے بعد انہیں محسوس ہو کہ شکیبؔ کی کوئی اہم غزل یا نظم مجموعے میں شامل نہیں ہو سکی‘ تو اس کی نقل بھجوا کر ممنون کریں تاکہ آیندہ اشاعت میں یہ کمی پوری کر دی جائے۔
احمد ندیم قاسمی