جب بھی چراغ لے کے اٹھے بستیوں کے لوگ
ظلمت میں اور ڈوب گئے بستیوں کے لوگ
جنگل جلے تو ان کو خبر تک نہ ہوسکی
چھائی گھٹا تو جُھوم اٹھے بستیوں کے لوگ
پُروا چلی تو اور سلگنے لگے بدن،
پل بھر بھی رات سو نہ سکے بستیوں کے لوگ
بپھرے ہوئے بھنور نے سفینہ نگل لیا
ساحل سے دیکھتے ہی رہے بستیوں کے لوگ
خوشبو کی اِک لپٹ پہ کِھنچے آرہے تھے ہم
کانٹوں کے ہار لے کر بڑھے بستیوں کے لوگ
بھٹکے ہوئے غریب مسافر پہ، اے شکیبؔ
رَہ زَن سمجھ کے ٹوٹ پڑے بستیوں کے لوگ
شکیب جلالی