آدابِ چمن بدل رہے ہیں
صحرا میں گلاب پل رہے ہیں
دنیا کی حقیقتیں وہی ہیں
اندازِ نظر بدل رہے ہیں
آمد ہے کس اسیرِ نو کی
زنداں میں چراغ جل رہے ہیں
ہمّت نے جواب دے دیا ہے
دیوانے پھر بھی چل رہے ہیں
ہونٹوں پہ ہنسی اور آنکھ پْرنم
پانی سے چراغ جل رہے ہیں
آشائیں غُروب ہو رہی ہیں
امید کے سایے ڈھل رہے ہیں
وہ راہ، شکیبؔ، کب ہے اپنی
جس راہ پہ لوگ چل رہے ہیں
شکیب جلالی