صبح سویرے اٹھتا ہوں
روز اندھیرے اٹھتا ہوں
اُٹھ کر سیر کو جاتا ہوں
ٹھنڈی ہوائیں کھاتا ہوں
پُھول اُسی دم کھلتے ہیں
غنچے آنکھیں ملتے ہیں
شبنم بکھری ہوتی ہے
کلیوں کا منھ دھوتی ہے
باغ مُعطّر ہوتا ہے
دل کش منظر ہوتا ہے
بلبل گیت سناتی ہے
کوئل شور مچاتی ہے
ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں
سب کو پنکھا جھلتی ہیں
ڈالی ڈالی ہلتی ہے
دل کو فرحت ملتی ہے
جسم میں چُستی آتی ہے
آنکھ بھی ٹھنڈک پاتی ہے
دن بھر جی خوش رہتا ہے
ہر غم ہنس کے سہتا ہے
جو کوئی اس دم سوتا ہے
اس نعمت کو کھوتا ہے
شکیب جلالی