ہُوا جو صحنِ گلستاں میں راج کانٹوں کا
صبا بھی پُوچھنے آئی مزاج کانٹوں کا
کہو تو زخمِ رگِ گُل کا تذکرہ چھیڑیں
کہ زیرِ بحث ہے کردار آج کانٹوں کا
ہم اپنے چاکِ قبا کو رفُو تو کر لیتے
مگر وہی ہے ابھی تک مزاج، کانٹوں کا
چمن سے اُٹھ گئی رسمِ بہار ہی شاید
کہ دل پہ بار نہیں ہے، رواج کانٹوں کا
درِ قفس پہ، اُسی کے گلے کا ہار تھے پُھول
جسے مِلا ہے گلستاں سے تاج کانٹوں کا
لگی ہے مُہر خراشوں کی دیدہ و دل پر
شکیبؔ! کوئی کرے کیا عِلاج کانٹوں کا
شکیب جلالی