واہمہ ہے کہ خدا؟
ذہن اُلجھے تو الجھتا ہی چلا جاتا ہے
چاند خاموش ستارے چپ ہیں
دل جو دھڑکے تو دھڑکتا ہی چلا جاتا ہے
ہاں مگر
واقعہِ کرب و بلا
تیرے مظلوم سجیلے کردار
دجلہِ خوں میں نہائے ہوئے بے باک سوار
درِ احساس پہ دیتے ہیں صدا
ہم نے ڈھونڈا ہے اُسے
پردہِ سنگِ نظر کے اُس پار
ہم نے پایا ہے اُسے
صفتِ رنگ کے پیراہن میں
اِک حقیقت کی طرح جلوہ نما
برق اد ا قَفسِ رنگ کے زندانی تجھے کیا معلوم
واہمے پر بھی کوئی جان دیا کرتا ہے؟
شکیب جلالی