سَحر میں حُسن ہے کیسا! بہارِ شب کیا ہے
شگُفتِ رنگ نہیں ہے تو پھر یہ سب کیا ہے
یہ اور بات ہے کوئی کسی کا دوست نہ ہو
اگر ہے کوئی تو پھر دشمنی عجب کیا ہے
’’کوئی بتائے کہ اب کیا جواب دوں ان کو،،
وہ پوچھتے ہیں مرے پیار کا سبب کیا ہے
وہ ایک بات جو سینے میں مثلِ راز نہ تھی
سمجھ گیا ہو زمانہ تو پھر عجب کیا ہے
وہ زرنگار ستارے بھی چھپ گئے آخر
خلا میں ڈھونڈ رہا ہوں متاعِ شب کیا ہے
زہے کرم کہ ہمیشہ سے تم مخالف ہو
وگرنہ جب بھی نہ تھا کچھ شکیبؔ، اب کیا ہے
شکیب جلالی