شکیب جلالی: ہم عصری حِسّیت کا خوبصورت پیکر از۔ ۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی

شکیب جلالی ’’روشنی اے روشنی‘ ‘ کی اشاعت ہی سے زندہ و تابندہ ہو گئے تھے۔ یہ مجموعہ۱۹۷۲ء میں شائع ہوا تھا۔ اور موجودہ کُلّیات کی اشاعت کے بعد اسے شکیب جلالی کی شاعری کا انتخاب ہی کہا جا سکتا ہے۔ انتخاب کے بارے میں عموماً یہ خیال کیا جاتاہے کہ انتخاب میں شامل نہ ہو سکنے والی شاعری کو نظر انداز کرنا مناسب خیال کیا گیا تھا۔ بہر حال شکیب جلالی کی ’’ کُلّیات ‘ ‘ میں شامل کلام‘ جو توقیتی خطوط یعنی سال بہ سال کے شعری سفر کو بڑی احتیاط کے ساتھ منضبط کر رہا ہے وہ اس خیال پر مہرِ تصدیق ثبت کر رہا ہے کہ شکیب جلالی کی شاعری ابتدا ہی سے حیرت ناک حد تک بہت منفرد اور خوش گوار طرزِ احساس کی شاعری رہی ہے۔

اگر ہم ’روشنی اے روشنی ‘ میں شامل کلام کے علاوہ شائع ہونے والے اس کلام پر نظردوڑائیں جو زیر نظر’کلّیات‘ میں شامل ہے تو شکیب جلالی کا شعری سفر کوہستانی سلسلہ کی طرح ناہموار نظر نہیں آتا بلکہ شکیب جلالی کے کلام کا گراف متواتر اوپر جاتا دکھائی دیتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ اتنے اچھے کلام کو ’روشنی اے روشنی‘ میں شامل کیوں نہ کر دیا گیا یا اس وقت ایسا ممکن نہ تھا تو پھر کسی اشاعتی ادارے نے غیر مطبوعہ کلام کی اشاعت میں اتنی دیر کیوں لگائی؟۔ خیر اب شکیب جلالی کے انتقال کے۳۸ سال بعد وہ وقت بالآخر آ ہی گیا جب ان کے برخوردار اقدس رضوی نے جو پیشے کے اعتبار سے بینکار ہیں لیکن اپنے والد بزرگوار کے شعری قدوقامت سے بخوبی واقف ہیں۔ اپنی لگن اور توجہ سے زمانہ کی غفلت شعاری کا رُخ پلٹ ہی دیا اور آج اُردو شاعری کے عشّاق کے لیے مقام مسرت ہے کہ ’روشنی اے روشنی‘ میں شکیب جلالی کی زندگی کے آخری زمانے کے کلام کے ساتھ ساتھ ابتدائی دور کا کلام ’پسِ غبار‘ سہی بلکہ ’پیشِ غبار‘ کا درجہ رکھتا ہے۔

میرا تجربہ ہے کہ اکثر شعرا کا کلام جو پہلے شعری مجموعے میں شامل ہونے سے رہ جاتا ہے وہ زیادہ تر کمتر درجہ ہی کا ہوتا ہے اور شاید اسی سبب سے اسے شامل اشاعت کرنا ضروری خیال نہ کیا جاتا ہو لیکن میں حیران ہوں کہ شکیب جلالی کا تمام کلام یقینی طور پر اس درجہ ہموار بلکہ خوب سے خوب تر کی طرف رواں دواں نظر آتا ہے کہ حیران ہوئے بغیر رہنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔

آپ شکیب جلالی کی شاعری کے غیر مطبوعہ کلام میں ۱۹۴۷، ۱۹۴۸، ۱۹۴۹ اور ۱۹۵۰ کے اشعار ملاحظہ فرمائیں اور خود فیصلہ کریں کہ یہ اشعار ’روشنی اے روشنی‘ کی شاعری کے منّار کے علاوہ اور کیا ہو سکتے ہیں۔

۱۹۴۷

زمانے کی نگاہوں میں سمو کر

مجھے دل سے بھلایا جا رہا ہے

۱۹۴۸

ہوشِ دیدار بھی نہیں باقی

کیا نظرسے پلا دیا تم نے

غمِ ہستی اُٹھائے پھرتا ہے

خاک کو کیا بنا دیا تم نے

درد کی لذّتیں ‘ ارے توبہ

مر کے جینا سکھا دیا تم نے

۱۹۴۹

اللہ رے فریبِ تصور کی خوبیاں

دشواریِ فِراق کو آساں بنا دیا

دیکھا شکیبؔ نقطے جما کر بنائے حَرف

حَرفوں سے شعر‘ شعر سے دیواں بنا دیا

۱۹۵۰

زمانے کو پہلی سی فرصت نہیں ہے

محبت بہ قدرِ محبت نہیں ہے

خوش ہوں کہ بات شورشِ طوفاں کی رہ گئی

اچھا ہوا نصیب کنارہ نہ ہو سکا

جب ہم مندرجہ بالا اشعار کے بعد۱۹۷۲ میں مطبوعہ کلام کی طرف آتے ہیں تو پھر اس باب میں کوئی شک و شبہ نہیں رہتا کہ وہ واقعتاً جدید اُردو غزل گو شعرا کی مختصر فہرست کے رکن رکین ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ شکیبؔ کی شاعری نے ’آب حیات‘ پی رکھا ہے۔ اُسے تازہ‘ ستھری اور اثر پزیر جذبات کی عکاسی اس طرح راس آتی ہے کہ جیسے وہ پیدا ہی اس لیے ہوا تھا کہ اپنے دور کی غزل کا مزاج متعین کر جائے۔ جسے غزل کے روایتی اور جدید مزاج کا لاجواب آمیزہ کہا جا سکتا ہے۔

شکیب جلالی نے اپنے دور کی گوناگوں پیچیدگیوں سے حیران کن جمالیاتی احساسات کے پیکر کی کیسے راہ ہموار کی ہے۔ اور وہ اس مشکل سفر سے اس طرح گزرے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں کہ :

ہم ہی خطرات مول لیتے ہیں

راستے پُر خطر نہیں ہوتے

متعدد جدید شعراء نے روایتی غزل کے مضامین اور اُس کے لوازمات سے انحراف کیا ہے‘ لیکن کامیابی بہت کم شعرا کے حصّے میں آئی۔ شکیب جلالی نے روایتی غزل کے دائرے میں رہتے ہوئے غمِ دوراں اور غمِ جاناں کو کچھ اس طورپر شیر و شکر کیاکہ وہ روایتی اور جدید شعری حلقوں میں یکساں مقبول ہوئے۔

میں نے ’روشنی‘ اے روشنی‘ کی ’انفرادیت‘ کے بارے میں اس مجموعے کے سالِ اشاعت کے دوران شائع ہونے والے اپنے (ایریل) کالم میں بہت مثبت انداز میں اظہارِ خیال کیا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ ۳۸ سال بعد شکیب جلالی کی شاعری کلّیات کی شکل میں آرہی ہے اور ا س طرح شکیب جلالی کی شاعری کے نئے عشّاق کے لیے شکیبؔ کے مکمل کلام سے لطف اندوز ہونے کا ایک موقع ہاتھ آیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ شکیب جلالی کی غزل میں ایک مقناطیسی قوت موجود ہے جو صاحبانِ ذوق کو اپنی جانب کھینچتی رہے گی۔

خاص طور پر ان کے یہاں اچھوتی تشبیہات کا وفور ملتا ہے جو بسااوقات استعاروں پر بھی بھاری ہوتا ہے۔ مثلاً:

گلے ملے نہ کبھی چاند‘ بخت ایسا تھا

ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا

ستارے سسکیاں بھرتے تھے‘ اوس روتی تھی

فسانہِ جگر لَخت لَخت ایسا تھا

ذرا نہ موم ہوا پیار کی حرارت سے

چٹخ کے ٹوٹ گیا‘ دل کا سخت ایسا تھا

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں

جس طرح سایہِ دیوار پہ دیوار گرے

کسی کاجسم اگر چھو لیا خیال میں بھی

تو پور پور مری‘ مثلِ شمع جلنے لگی

نہ جانے کیا کہا اُس نے بہت ہی آہستہ

فضا کی ٹھہری ہوئی سانس پھر سے چلنے لگی

آخر کو تھک کے بیٹھ گئی اِک مقام پر

کچھ دور میرے ساتھ چلی رہ گزار بھی

اے دوست پہلے قُرب کا نشہ عجیب تھا

میں سن سکا نہ اپنے بدن کی پکار بھی

میں نے مندرجہ بالا اشعار مشتے نمونہ از خروارے کے طورپر نقل کیے ہیں۔ شکیبؔ کے پہلے مجموعے میں درجنوں ایسے اشعار ہیں جو ہمیں اپنے ندرتِ خیال کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ ہمیں اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ غزل واقعتاً کس قدر شاداب صنفِ سخن ہے کہ یہ منفرد حسّیت کے حامل شعرا کو اُن لمحات سے نوازتی رہتی ہے جن میں ادا کیے ہوئے شعری پیکر اپنی سادگی کی سج دھج سے ہمیں متعجب کرتے ہیں اور یہ استعجاب ہی اچھے اشعار کا وہ تحفہ ہے جو ہمارے بہت ہی نجی تجربات پر مہرِتصدیق ثبت کرتاہے او رہم کلماتِ تحسین ادا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ شکیب جلالی کی شاعری کے نئے عشّاق شکیبؔ جیسے بلا کے حسّاس شاعر کی خوبصورت شاعری پر متعجب ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ اس کی شاعری نے شعری وفور سے خالی ریاضیاتی زبان کی شاعری کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا تھا‘ اور یہ ثابت کر دکھا یا تھا کہ غزل انسانی کیفیات کے ہر رُخ کی ترجمانی اپنی مخصوص ایمائیت کے ساتھ کر سکتی ہے جس سے حُسن کاری اور کفایتِ لفظی کے ساتھ ہم عصری حسّیت کے واجبات از خود پورے ہوجاتے ہیں۔ شکیب جلالی نے ’نئی شاعری‘ کے اجاڑپن کے مقابلہ میں حسن و عشق کی ہریالی میں سرسوں کے جو پھول اُگائے تھے وہ اب تک سہانا منظرپیش کر رہے ہیں اور امید ہے کہ آیندہ بھی ہمارے لیے روح کی غذا کا کام دیں گے۔

شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s