شعورِ کائنات کے دوش بدوش معرفتِ ذات کو اُجاگر کرنے کا سلسلہ شکیب جلالی کی شاعری کا مخصوص او رنمایاں عمل ہے۔ اُردو میں وہ علامتی شاعری کابانی ہے۔ اس نے زندگی کو اپنے شعور کے آئینے میں دیکھا اور اپنے شعور کے مطابق ہی زندگی کو پیش کیا جس نے اس کی شاعری کو صداقتِ احساس کا ایک ایسا نمونہ بنا دیا ہے جس کی مثال ہماری شاعری میں خال خال ہی ملتی ہے۔ چند شعرملاحظہ ہوں :
ستارے سسکیاں بھرتے تھے اوس روتی تھی
فسانہِ جگرِ لَخت لَخت ایسا تھا
یہ اور بات کہ وہ لَب تھے پھول سے نازک
کوئی نہ سہہ سکے لہجہ کرخت ایسا تھا
مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
جس طرح سایہِ دیوار پہ دیوار گرے
وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے
کس گھڑی سر پہ یہ تلوار گرے
اسی لیے تو ہوا رو پڑی درختوں میں
ابھی میں کِھل نہ سکا تھا کہ رُت بدلنے لگی
کسی کا جسم اگر چھو لیا خیال میں بھی
تو پور پور مری مثلِ شمع جلنے لگی
مری نگاہ میں خواہش کا شائبہ بھی نہ تھا
یہ برف سی ترے چہرے پہ کیوں پگھلنے لگی
نہ جانے کیا کہا اس نے بہت ہی آہستہ
فضا کی ٹھیری ہوئی سانس پھر سے چلنے لگی
غزلوں کے علاوہ اس کی نظموں میں بھی جو تازگی و شگفتگی کے ساتھ معنویت کا جادو نظر آتا ہے وہ اس کی انفرادیت ہی سے منسوب ہے۔ مثلاً اس کی نظم ’تُم‘ دیکھتے ہیں۔
سحر کدے کا تقدّس‘ قمر کی آب ہو تم
ہجومِ نُور ہو‘ شعلہ ہو‘ آفتاب ہو تم
یہ روشنی کا تمّوج‘ یہ شوخیوں کے شرار
نگارِ برق ہے رقصاں کہ بے نقاب ہو تم
ہے گوشہ گوشہ منوّر تو کُنج کُنج نکھار
دیارِ حسن ہو تم وادیٔ شباب ہو تم
صبا کا لَوچ گلوں کی پَھبن خمیر میں ہے
چمن کی رُوح بہاروں کا انتخاب ہو تم
نظر کہ جامِ صبوحی‘ چلن کہ مستیِٔ رقص
حریمِ بادہ ہو تم پیکرِ شراب ہو تم
نفس نفس میں ترنّم کی جوت جاری ہے
غزل کا شعر ہو تم نغمہ و رُباب ہو تم
یہ نغمگی‘ یہ بہاریں ‘ یہ رنگ و نور‘ یہ رُوپ
خدائے حسن کی تصویرِ کامیاب ہو تم
یہ شورشیں ‘ یہ تکلّف‘ یہ لغزشیں ‘ یہ خرام
بہر ادا یہ حقیقت ہے لاجواب ہو تم
نہیں نہیں کہ حقیقت گراں بھی ہوتی ہے
سحر شکار اُمنگوں کا کوئی خواب ہو تم
غرض یہ کہ اس کی غزلیں اورنظمیں دونوں اس کی اپنی ذات کی گواہی دیتی نظر آتی ہیں اور یہ ایک ایسی خوبی ہے جو اسے دنیاے ادب میں ہمیشہ ہمیشہ زندہ رکھے گی