راہ دکھلاؤ رات اندھیری ہے
شمع بن جاؤ رات اندھیری ہے
جا رہے ہیں وہ روٹھ کر اِس وقت
ان کو سمجھاؤ رات اندھیری ہے
اب تو کچھ بھی نظر نہیں آتا
شمعِ مے لاؤ رات اندھیری ہے
پھنس ہی جائیں گے بے اماں پنچھی
جال پھیلاؤ رات اندھیری ہے
تیرگی کا ہے آنکھ پر پہرہ
اب تو آجاؤ رات اندھیری ہے
میری آنکھوں میں جل رہے ہیں دیے
یوں نہ گھبراؤ رات اندھیری ہے
چاندنی ہو شکیبؔ کی تم ہی
بُھول بھی جاؤ رات اندھیری ہے
شکیب جلالی