بساطِ رنگ بچھاؤ بہار آئی ہے
سمن کدوں کو سجاؤ بہار آئی ہے
صبا کے ہاتھ ملا ہے پیامِ بیداری
کلی کلی کو جگاؤ بہار آئی ہے
سَحر کا رنگ، ستاروں کا نُور پگھلا کر
رُخِ چمن پہ بہاؤ بہار آئی ہے
نگارِ باغ کی دوشیزگی نکھر جائے
کلی کو پُھول بناؤ بہار آئی ہے
فضا کی تشنہ لَبی پر مٹھاس بکھرا دو
رسیلے گیت سناؤ بہار آئی ہے
کوئی خوشی کا فسانہ کوئی ہنسی کی بات
لَبوں سے پھول گراؤ بہار آئی ہے
نظر کے ساتھ شفق رنگ، مے کا دَور چلے
فضا کو مست بناؤ بہار آئی ہے
غمِ خزاں کا چمن میں کوئی نشاں نہ ملے
اک ایسا جشن مناؤ بہار آئی ہے
یہیں پہ جنتِ قلب و نظر کی ہو تشکیل
یہیں پہ خُلد بساؤ بہار آئی ہے
شکیب جلالی