دلوں میں درد سا اُٹّھا‘ لیا جو نامِ حسینؑ
مثالِ برق تڑپنے لگے غلامِ حسینؑ
لَبِ فرات جو پیاسے رہے امامِ حسینؑ
خدا نے بھر دیا آبِ بقا سے جامِ حسینؑ
رضا و صبر میں ان کا جواب کیا ہو گا
کہ جب بھی تیر لگا‘ ہنس دیے امامِ حسینؑ
غرورِ تیرگیِ شب کو توڑنے کے لیے
تمام رات دہکتے رہے خیامِ حسینؑ
فنا کا ہاتھ وہاں تک پہنچ نہیں سکتا
اَبَد کی لَوح پہ کَندہ رہے گا نامِ حسینؑ
کسی شہید کا خوں رایگاں نہیں جاتا
جہانِ نو کے یزیدو! سنو، پیامِ حسینؑ
شکیب جلالی