……… 1 ………
مدتوں کنجِ قفس میں ہم نے
آشیانے کے لیے خواب بُنے
چاندنی رات کی مہکاروں میں
گنگنانے کے لیے خواب بُنے
اپنے تاریک شَبستانوں کو
جگمگانے کے لیے خواب بُنے
……… 2………
بزمِ ہستی میں اندھیرا ہی رہا
ماہ پَاروں کا فُسوں ٹوٹ گیا
جن سے غنچوں نے ہنسی مانگی تھی
ان بہاروں کا فُسوں ٹوٹ گیا
یا تو گرداب سے ابھرے ہی نہ تھے
یا کِناروں کا فُسوں ٹوٹ گیا
……… 3 ………
تُند موجوں سے اَماں مل نہ سکی
تیز دھاروں میں بھٹکتے ہی رہے
سایہِ گُل کے طلب گار تھے ہم
خارزاروں میں بھٹکتے ہی رہے
رہ نماؤں کا کرم کیا کہیے
رہ گزاروں میں بھٹکتے ہی رہے
……… 4 ………
تلخیِ زیست وہی ہے اب تک
وہی غم ہیں ‘ وہی تنہائی ہے
جب بھی فنکار نے لَب کھولے ہیں
ایک زنجیر سی لہرائی ہے
صبحِ آزادیِ گلشن تو نہیں
شبِ غم بھیس بدل آئی ہے
شکیب جلالی