زنجیریں

دم بخود سارے شگوفے تھے مہک سے محروم

نکہتِ گُل کی پھواروں پہ کڑے پہرے تھے

چمپئی بیل کی سیّال نمُو پر قدغن

سرو و سوسن کی قطاروں پہ کڑے پہرے تھے

غم کے تاریک لبادوں میں سمن زار اسیر

تیرگی پوش چناروں پہ کڑے پہرے تھے

گیت محبوس عنادل کے لبوں پر تالے

اس گھڑی زمزمہ کاروں پہ کڑے پہرے تھے

پھر ہوا شور کہ وہ طوق و سِلاسل ٹوٹے

تیرہ و تار دریچوں سے اُجالے پھوٹے

اک مسرّت کی کرن تیر گئی گلشن میں

اب شعاعِ گُل و انجم پہ کوئی قید نہیں

لالہِ وقت کے ہونٹوں پہ ستارے ابھرے

پھول سمجھے کہ تبسّم پہ کوئی قید نہیں

بند کلیوں کے چٹکنے کی کھنک لہرائی

جس طرح اذنِ تکلّم پہ کوئی قید نہیں

گھنگھرو باندھ کے پاؤں میں صبا اٹھلائی

جس طرح رقص و ترنّم پہ کوئی قید نہیں

لیکن افسوس کہ زنجیر صدا دیتی ہے

ہر اُبھرتی ہوئی آواز دبا دیتی ہے

شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s