زخم کِھلتے ہیں ترے گاؤں سے دُور

میٹھے چشموں سے‘ خُنَک چھاؤں سے دُور
زخم کِھلتے ہیں ترے گاؤں سے دُور
سنگِ منزل نے لہو اُگلا ہے
دُور‘ ہم بادیہ پیماؤں سے دُور
کتنی شمعیں ہیں اسیرِ فانوس
کتنے یوسف ہیں زلیخاؤں سے دُور
کِشتِ امید سلگتی ہی رہی
ابر برسا بھی تو صحراؤں سے دُور
جَورِ حالات‘ بھلا ہو تیرا
چین ملتا ہے شناساؤں سے دُور
جنّتِ فکر بُلاتی ہے چلو
دَیر و کعبہ سے‘ کلیساؤں سے دُور
رقصِ آشفتہ سراں دیکھیں گے
دُور‘ ان انجمن آراؤں سے دُور
جستجو ہے درِّ یکتا کی‘ شکیبؔ
سیپیاں چُنتے ہیں دریاؤں سے دُور
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s