یوں بھی دیا خراجِ عقیدت بہار کو
زخمی نظر سے چُوم لیا خار خار کو
دنیا اسی کو تنگ نظر کہہ رہی ہے آج
جس نے پناہ دی ہے ترے اعتبار کو
کیسے کہیں کہ ہم سے ہے توقیرِ رنگ و بُو
اب تک چھپا رہے ہیں وہ رازِ بہار کو
منزل پہ آ کے خواہشِ منزل بدل گئی
پھر کوئی جستجو ہے مرے جذبِ کار کو
بروقت آگیا ہے کوئی وعدہ کوش آج
اک دن چُھپا لیا تھا غمِ انتظار کو
تسلیم وہ حَسیں ہیں مگر میرے ذوق نے
تشکیل دی ہے ایک نئے شاہکار کو
کرنے لگا ہے چھیڑ، غمِ عشق سے، شکیبؔ
یہ حوصلہ ہوا ہے غمِ روزگار کو
شکیب جلالی