زخموں کو اب گِنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے

جاتی ہے دھوپ اُجلے پروں کو سمیٹ کے
زخموں کو اب گِنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے
میں ہاتھ کی لکیریں مٹانے پہ ہوں بضد
گو جانتا ہوں ، نقش نہیں یہ سلیٹ کے
دنیا کو کچھ خبر نہیں ، کیا حادثہ ہوا
پھینکا تھا اس نے سنگ، گُلوں میں لپیٹ کے
فوّارے کی طرح نہ اُگل دے ہر ایک بات
کم کم وہ بولتے ہیں جو گہرے ہیں پیٹ کے
اک نُقرئی کھنک کے سِوا کیا ملا، شکیبؔ
ٹکڑے یہ مجھ سے کہتے ہیں ٹوٹی پلیٹ کے
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s