یہ خلائیں ہیں گوش بر آواز
راز داں اب قریب آ جائیں
ہم سفر رہ گئے بہت پیچھے
آؤ کچھ دیر کو ٹھہر جائیں
دوستی کا فریب ہی کھائیں
آؤ کاغذ کی ناو تیرائیں
ہم اگر رَہ رَوی کا عزم کریں
منزلیں کِھنچ کے خود چلی آئیں
ان بہاروں کی آبرو رکھ لو
مسکرا دو کہ پھول کِھل جائیں
مجھ کو آمادہِ سفر نہ کرو
راستے پُر خطر نہ ہو جائیں
ان پناہوں میں کچھ نہیں ہے اب
بادہ کش مے کدے سے لوٹ آئیں
راستے سے ہٹا لو تاروں کو
میرے پیروں تلے نہ آ جائیں
مُطربہ ایسا گیت چھیڑ کہ ہم
زندگی کے قریب ہو جائیں
گیسوئے زیست کے یہ اُلجھاؤ
آؤ مل کر شکیبؔ، سلجھائیں
شکیب جلالی