اب یہ ویران دن‘ کیسے ہو گا بسر
رات تو کٹ گئی‘ درد کی سیج پر
بس یہیں ختم ہے پیار کی رہ گزر
دوست! اگلا قدم کچھ سمجھ سوچ کر
اس کی آوازِ پا تو بڑی بات ہے
ایک پتّہ بھی کھڑکا نہیں رات بھر
گھر میں طوفان آئے زمانہ ہُوا
اب بھی کانوں میں بجتی ہے زنجیرِ در
اپنا دامن بھی اب تو میسّر نہیں
کتنے ارزاں ہوئے آنسوؤں کے گُہر
یہ شکستہ قدم بھی ترے ساتھ تھے
اے زمانے ٹھہر! اے زمانے ٹھہر!
اپنے غم پر تبسّم کا پردہ نہ ڈال
دوست! ہم ہیں سوار ایک ہی ناؤ پر
شکیب جلالی