سرِ رہ اب نہ یوں مجھ کو پکارو، تم ہی آجاؤ
ذرا زحمت تو ہو گی رازدارو! تم ہی آجاؤ
کہیں ایسا نہ ہو دم توڑ دیں ، حسرت سے دیوانے
قفس تک ان سے ملنے کو بہارو! تم ہی آجاؤ
بھروسا کیا سفینے کا، کئی طوفان حائل ہیں
ہماری ناخدائی کو کنارو! تم ہی آجاؤ
ابھی تک وہ نہیں آئے یقینا رات باقی ہے
ہماری غم گساری کو ستارو! تم ہی آجاؤ
شکیبؔ غم زدہ کو درد سے ہے اب کہاں فرصت
اگر کچھ وقت مل جائے تو پیارو! تم ہی آجاؤ
شکیب جلالی