درد کے موسم کا کیا ہو گا اثر انجان پر
دوستو‘ پانی کبھی رکتا نہیں ڈھلوان پر
آج تک اس کے تعاقب میں بگولے ہیں رَواں
اَبر کا ٹکڑا کبھی برسا تھا ریگستان پر
میں جو پَربت پر چڑھا‘ وہ اور اُونچا ہو گیا
آسماں جُھکتا نظر آیا مجھے میدان پر
کمرے خالی ہو گئے‘ سایوں سے آنگن بھر گیا
ڈُوبتے سورج کی کرنیں جب پڑیں دالان پر
اب یہاں کوئی نہیں ہے‘ کس سے باتیں کیجیے
یہ مگر چُپ چاپ سی تصویر آتشدان پر
آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے
تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر
بس چلے تو اپنی عریانی کو اس سے ڈھانپ لوں
نیلی چادر سی تنی ہے جو کُھلے میدان پر
وہ خموشی انگلیاں چٹخا رہی تھی‘ اے شکیبؔ
یا کہ بوندیں بج رہی تھیں رات روشن دان پر
شکیب جلالی