دنیا کو ہم بہ حُسنِ نظر دیکھتے رہے

ذرّوں میں آفتاب و قمر دیکھتے رہے
دنیا کو ہم بہ حُسنِ نظر دیکھتے رہے
لوگ ان سے مانگتے رہے لُطف و کرم کی بھیک
ہم خامشیِ غم کا اثر دیکھتے رہے
ظلمت میں اعتمادِ نظر ضَوفشاں رہا
ہر رنگ میں جمالِ سَحر دیکھتے رہے
یہ زندگی ہے تازہ اُمنگوں کا اک الاؤ
ہر ہر نَفَس میں رقصِ شرر دیکھتے رہے
دنیا سے بے خبر کئی عالم گزر گئے
ہم محویت میں جانے کدھر دیکھتے رہے
چُھپتے رہے وہ طالبِ دیدار جان کر
ہم تھے کہ ان کا حُسنِ نظر دیکھتے رہے
آدابِ رَہ روی سے جو واقف نہیں ، شکیبؔ
ان کو بھی ہم شریکِ سفر دیکھتے رہے
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s