دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا

ساحل تمام اشکِ ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا
لگتا تھا بے کراں مجھے صحرا میں آسماں
پہونچا جو بستیوں میں تو خانوں میں بٹ گیا
یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر
یا اتنا نرم دل کہ رگِ گل سے کٹ گیا
بانہوں میں آ سکا نہ حویلی کا اک ستون
پتلی میں میری آنکھ کی صحرا سمٹ گیا
اب کون جائے کوئے ملامت کو چھوڑ کر
قدموں سے آ کے اپنا ہی سایہ لپٹ گیا
گنبد کا کیا قصور اسے کیوں کہوں برا
آیا جدھر سے تیر، ادھر ہی پلٹ گیا
رکھتا ہے خود سے کون حریفانہ کشمکش
میں تھا کہ رات اپنے مقابل ہی ڈٹ گیا
جس کی اماں میں ہوں وہ ہی اکتا گیا نہ ہو
بوندیں یہ کیوں برستی ہیں، بادل تو چھٹ گیا
وہ لمحہِ شعور جسے جانکنی کہیں
چہرے سے زندگی کے نقابیں الٹ گیا
ٹھوکر سے میرا پاؤں تو زخمی ہوا ضرور
رستے میں جو کھڑا تھا وہ کہسار ہٹ گیا
اک حشر سا بپا تھا مرے دل میں اے شکیبؔ
کھولیں جو کھڑکیاں تو ذرا شور گھٹ گیا
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s