کسی کے پاے شکستہ پہ بار گزری ہے
خلافِ حُسنِ توقع بہار گزری ہے
وقارِ حسن بہ تمثیلِ برق کیوں ہے آج
صداے درد تھی سیماب وار گزری ہے
خزاں کا عکس ہی دیکھا ہے صبحِ گلشن میں
بشکلِ آینہ موجِ بہار گزری ہے
یہ جَاں بلب سے شگوفے یہ مُردہ رنگ کنول
یہاں سے رحمتِ ابرِ بہار گزری ہے!
رِداے حسن کے ٹکڑے فضا میں پھیلے ہیں
مری نگاہ بصد انتشار گزری ہے
شکیبؔ! فرطِ عقیدت میں کہہ گئے ہیں وہ بات
جو آگہی پہ بہت ناگوار گزری ہے
شکیب جلالی