خداوندانِ جمہُور سے!

عُروسِ صبح سے آفاق ہم کنار سہی

شکستِ سلسلہِ قیدِ انتظار سہی

نگاہِ مہرِ جہاں تاب کیوں ہے شرمندہ

شفق کا رنگ شہیدوں کی یادگار سہی

بکھرتے خواب کی کڑیوں کو آپ چُن دیجے

کیا تھا عہد جو ہم نے وہ پائدار سہی

ہجومِ لالہ و ریحاں سے داد چاہتے ہیں

یہ چاک چاک گریباں گلے کا ہار سہی

گِنے جوزخمِ رگِ جاں ‘ شریکِ جشنِ حیات

پیے جو ساغرِ زہراب بادہ خوار سہی

چمن میں رنگِ طرب کی کوئی کمی نہ رہے

ہمارا خونِ جگر غازہِ بہار سہی

تھکن سے چُور ہیں پاؤں ‘ کہاں کہاں بھٹکیں

ہر ایک گام نیا حُسنِ رہ گزار سہی

سُکوں بدوش کنارا بھی اب اُبھر آئے

سفینہ ہاے دل و جاں بھنور کے پار سہی

شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s