صبح لیتی ہے انگڑائیاں گاؤں میں
پھر اُجالا ہوا پُرفشاں گاؤں میں
کل تلک جھاڑ جھنکار‘ گرد و غبار
آج پھل پھول پُھلواریاں گاؤں میں
ہر قدم پر اُگے ہیں ستاروں کے کھیت
ہر گلی بن گئی کہکشاں گاؤں میں
صاف شفّاف روشن خنک راستے
اُجلے اُجلے معطّر مکاں گاؤں میں
فصلِ گندم کے خوشے جواہر نگار
موتیوں کی کمی اب کہاں گاؤں میں
کُوبکُو خوشبوؤں کے حسیں قافلے
سُو بہ سُو دُودھ کی ندّیاں گاؤں میں
زندگی مانگتی ہے زمیں سے خراج
کوئی ذرّہ نہیں رائیگاں گاؤں میں
عزم و اخلاص کی زندہ تصویر ہیں
شوخ بانکے سجیلے جواں گاؤں میں
رہٹ گاتا ہے پائل کی جھنکار پر
رقص کرتی ہیں پنہاریاں گاؤں میں
شہر کی پُر تصنّع فضاؤں سے دُور
میری منزل ہے جنّت نشاں گاؤں میں
شکیب جلالی