خامشی میں پیام ہوتے ہیں

بے زباں ہم کلام ہوتے ہیں
خامشی میں پیام ہوتے ہیں
راز داں مل کے لوٹ لیتے ہیں
اجنبیوں کے نام ہوتے ہیں
خار مے نوش ہیں کسے معلوم
آبلے مثلِ جام ہوتے ہیں
دل کی آواز کوئی سُن لیتا
صاحبِ گوش، عام ہوتے ہیں
اٹھ رہے ہیں غلاف پلکوں کے
حادثے بے نیام ہوتے ہیں
زیست میں زہر گھولنے والے
کس قدر خوش کلام ہوتے ہیں
مُسکرا کر نگاہ ڈوب گئی
اس طرح بھی سلام ہوتے ہیں
کس قدر خود نظر ہیں دیوانے
اجنبی بن کے عام ہوتے ہیں
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s