شکست خوردہِ حالات ہو گئی ہو گی
حیات صَرفِ خرابات ہو گئی ہو گی
کبھی جو پُرسشِ حالات ہو گئی ہو گی
خدا گواہ کہ برسات ہو گئی ہو گی
جو راہِ شوق میں حائل تھا اک جہان تو کیا
نظر نظر میں ملاقات ہو گئی ہو گی
جہانِ تازہ کی شمعیں بھی بجھ گئی ہوں گی
مرے جہاں میں اگر رات ہو گئی ہو گی
ہَوا سے آپ کی زلفیں بکھر گئی ہوں گی
فضا میں بارشِ ظلمات ہو گئی ہو گی
کسی نے شرم سے چہرہ چھپا لیا ہو گا
نگاہ محوِ جمالات ہو گئی ہو گی
وہ اجنبی کی طرح پیش آئے ہوں گے، شکیبؔ
جو راستے میں ملاقات ہو گئی ہو گی
شکیب جلالی