عشق کے غم گُسا ر ہیں ہم لوگ
حسن کے راز دار ہیں ہم لوگ
دستِ قدرت کو ناز ہے ہم پر
وقت کے شاہ کار ہیں ہم لوگ
ہم سے قائم ہے گُلستاں کا بھرَم
آبروئے بہار ہیں ہم لوگ
منزلیں ہیں ہمارے قدموں میں
حاصلِ رہ گزار ہیں ہم لوگ
ہم سے تنظیم ہے زمانے کی
محورِ روزگار ہیں ہم لوگ
ہم جو چاہیں گے اب وہی ہو گا
صاحبِ اختیار ہیں ہم لوگ
ہم سے روشن ہے کائنات، شکیبؔ
اصلِ لیل و نہار ہیں ہم لوگ
شکیب جلالی