جلتے ہوئے چراغ تہِ آب دیکھتے

ساحل سے دُور جب بھی کوئی خواب دیکھتے
جلتے ہوئے چراغ تہِ آب دیکھتے
ہم نے فضول چھیڑ دی زخمِ نہاں کی بات
چُپ چاپ رنگِ خندہِ احباب دیکھتے
غم کی بس ایک موج نے جن کو ڈبو دیا
اے کاش وہ بھی حلقہِ گرداب دیکھتے
بیتے دنوں کے زخم کُریدے ہیں رات بھر
آئی نہ جن کو نیند وہ کیا خواب دیکھتے
کشکولِ شعرِتر لیے پھرتے نہ ہم‘ شکیبؔ
اس ریشمیں بدن پہ جو کمخواب دیکھتے
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s